آج کا نوجوان

ایک ایسی عظیم الشان ہستی کہ جس کو تحریر میں بیان کرنا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ خدا کی اس تخلیق کے کمالات اور صلاحیتوں‌ کا اندازہ لگانا کسی خاص و عام کے بس کی بات نہیں‌۔ بدلتے وقت کے ساتھ دورِجدید کے آلات سے لیس آج کا نوجوان کسی سے کم نہیں۔ سوچوں‌سے فتوحات کا جو طریقہ آج کے نوجوان نے متعارف کروایا اسے دیکھ کر کل کے نوجوان بھی ششدر ہیں‌۔ یقیناََ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی حوصلہ افزائی کا موقع آئے تو ہمارے بڑے بزرگ “جوان بن جوان” جیسے جملے پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ نوجوان بول کر وہ نو کا بوجھ ایک جوان پر ڈالنے سے بھی گریزاں ہیں۔ شاید اس لئیے کہ تعداد میں زیادہ ہونے سے کہیں‌کسی ایسی حیرانگی کا باعث نہ بن جائیں جو کمزور دل حضرات برداشت نہ کر پائیں۔

 اقبال کے شاھین Iqbal

اگر بات عقل وفہم کی ہو تو یہاں بھی انکا کوئی ثانی نہیں. تاریخ سے جو سبق انھوں نے حاصل کیا وہ کوئی اور نہیں کرسکا۔ اقبال کے شاہین کو اس قدر سنجیدگی سے لیا کہ بہت سے نوجوان تاریکیِ رات میں‌شاہین بنے گلی نکڑ میں‌اونچی اڑان بھرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ نوجوان اسی جزبے سے سرشار اکثروبیشتر اتنی اونچی پروازبھرتے ہیں‌کہ گمان ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی شاہین سے تو ملاقات کر کے ہی زمین پر واپس تشریف لائیں‌گے۔

خدمتِ خلق

خدمت کا عنصر بھی ایسا نمایاں موجود ہے جسکی نطیر تلاش کرنا مشکل ہی نہیں‌ بلکہ عین ناممکن ہوگا۔ اگر خدمت خلق کی بجائے اس کو خدمت نسواں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا. ہمسائے ہوں اور تھوڈے حسین ہوں‌ تو جناب کیا مجال کی خدمت کا ایک بھی لمحہ ہاتھ سے جانے پائے اور اگر ایسا نادر موقع نہ ملے تو آج کا جوان موقع خود تخلیق کرنے سے بھی خوب واقف ہے۔ اسی اثناء میں اگر ان کو محبت ہو جائے تو ایسی سچی اور پاک محبت تو مجنوں کو لیلیٰ سے ہوئی نہ رانجھے کو ہیر سے اور شاید یہی دیکھتے ہوئے خدا نے باتوں‌ سے ہی چاند تارے توڑلانے کی جوصلاحیت ان کو بخشی اگر فرہاد وہ مخط سن لے تو شیریں کے لئے پہاڈ سے دودھ کی نہرنکالنےکی اپنی عظیم غلطی پہ نہ صرف نادم ہو بلکہ ان کے ہاتھوں پہ بیعت کر لے۔

میں ایسا کیوں ہوں؟ Nasir Khan jan

ایسی بیشتر خوبیاں اور چکاچوند صوانح کے باوجود آج کا نوجوان نجانے کیوں‌ تنقید کا شکار ہے۔ گھر والے ہوں، رشتے داریا کوئی بھولے بھٹکے زبردستی کے انکل سب ہی گویا ہدایات کا انبار لئے پیچھے پڑے نظر آتے ہیں‌۔ پر قطع نظران سب شکوے شکایات کے آج کا نوجوان جانتا ہے کہ ایسی حصلوں کو پست کرنے والی باتوں‌ اور ارادوں‌ کو کیسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان کی نظر کرتے ہوئے ہوا می اڑادینا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *