ء 2015 میں جب چینی صدر نے پاکستان کا دورہ کیا تو ایک امید کی فضا پورے ملک میں پھیل گئی۔ بین الاقوامی میڈیا نے اسے خطے کے لیئے مثبت تبدیلی کا ایک کارنامہ قرار دیا۔ پاکستانی حکومت کا کہنا تھا کہ چینی سرمایہ کاری معیشت کی کایا پلٹ دے گی، روزگار پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ مگر آج تقریبا چار سال بعد بھی کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ جس دور میں تمام دنیا چین سے ہوشیار ہو رہی ہے، پاکستان جین پر اندھا اعتماد کر رہا ہے۔ کیا آج کے دور میں ہمیں اس معاہدے پر نظرثانی کی ضرورت ہے؟
پاکستان کی طرح زیمبیا اور سری لنکا نے بھی چین سے بیلین ڈالر قرضے لیے ہیں اور ان کی کہانی پاکستان کے لیئے ذریعہ عبرت ہے۔ رواں سال، افریقہ کے تحقیقاتی اخبار کے مطابق، زیمبیا کا سب سے بڑا بجلی گھر ریاست کو چینی ریاستی کمپنیوں کو بیچنا پڑا۔ اسی طرح سری لنکا میں چین نے بےتحاشہ سرمایہ کاری کی۔ چینی ریاستی کمپنیوں نے سری لنکا کے لیے ایک بندرگاہ تعمیر کی جو بلآخر ننانوے سال کے لیئے چین کی ہوئی بسمیت پندرہ ہزار ایکڑ زمین۔ یہ دونوں ممالک چین کا قرضہ نہیں اتار سکے اور اس کی بھاری قیمت ادا کی۔ اس خیال کو پس منظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ کیا پاکستان یہ قرضے اتار سکتا ہے یا ہم بھی گوادر اور اس کے گرد کے ذخائر کو چین کے حوالے کر بیٹھیں گے۔

مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ چین قرضے کس طرح دیتا ہے اور کیوں؟ آج سے پانچ دہائیاں پہلے چین تیزی سے صنعتی ترقی کی طرف بڑھ رہا تھا، اس لیے لوہے، سیمنٹ اور تعمیراتی اشیاء کے سینکڑوں کارخانے لگائے گئے۔ چین کی یہ صنعت بےشمار لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے مگر آج چین میں ان اشیاء کی ضرورت نہیں۔ مگر ریاست اس صنعت کو بند بھی نہیں کرنا چاہتی، کیونکہ اس سے بےروزگاری کی ایک لہر چین کو لپیٹ لے گی۔ اس مشکل کا حل چین نے یوں نکالا کہ انہوں نے یہ مال دوسرے ممالک کو بیچنا شروع کر دیا۔ مگر دوسرے ممالک جن کے ہاں اس سب کی وافر پیداوار ہے، وہ چین کی اشیاء کیوں خریدیں؟ تعمیراتی اشیاء کی وافر پیداوار زیادہ تر غیرترقی یافتہ ممالک میں میں ہوتی ہے۔ جن کے پاس ترقیاتی منصوبوں کے لیئے سرمایہ نہیں ہوتا۔ ان ممالک کو اس سرمایے کی اشد ضرورت ہوتی ہے، اور چین اپنے قرضے اس شرط پر دیتا ہے کہ سرمایہ کنندہ تعمیر کی تمام اشیاء چین سے خریدے گا۔ یہ ہی نہیں بلکہ چین یہ شرائت بھی رکھتا ہے کہ تمام ماہرین اور کمپنیاں چینی ہوں گی۔ اس طرح چین صرف پیسے اس لیے دیتا ہے کہ سرمایہ کنندہ یہ تمام پیسہ چین کو اشیاء اور ماہرین کے بدلے واپس کرے۔ یہ پیسہ چین سے نکلتا ہی نہیں اور چین کے زرمبادلہ کے ذخائر کم نہیں ہوتے۔ تمام نوکریاں چینی باشندوں کو مل جاتی ہیں اور دوسرا ملک منہ دیکھتا رہتا ہے۔ اب اس ملک کو اس قرضے (جو اس ملک میں آیا بھی نہیں) کے ساتھ ساتھ سود دینا پڑھتا ہے۔ جب یہ ممالک یہ قرضہ ادا نہیں کر سکتے تو چین قرضوں کے عوض ریاستی اداروں پر قبضہ کر لیتا ہے۔ اب زیمبیا کے بجلی صارفین اپنی رقم چینی ریاست کو اس کمپنی کی شکل میں دیتے ہیں جو قرضوں سے پہلے ان کے اپنے ملک کی تھی۔
پاکستان بھی اسی ہتھکنڈے کا شکار ہو گا اگر ریاستی افسران چین سے اندھی دوستی پر نظرثانی نہیں کریں گے۔