پروین شاکر شاید اردو کی سب سے معروف شاعرہ ہیں، ان کی شاعری نے اردو ادب میں احساسات و جذبات کی نزاکت کی ایک نئی روح پھونکی۔ شاکر نے چھوٹی عمر سے ہی لکھنا شروع کر دیا۔ وہ نوعمری میں نثر و شاعری لکھنے لگیں جو اردو اخبارات میں شائع بھی ہوئیں۔ اس زمانے میں انہوں نے تخلص “بینا” کا انتخاب کیا۔

شاکر نے زیادہ تر غزلیات اور آزاد نظمیں لکھیں، اور اپنے منفرد انداز سے آزاد نظموں میں عمدہ رنگ و احساسات بھرے۔ شاکر نے اپنی نجی زندگی سے متاثر ہو کر درد و رنج کے موضوعات پر شاعری کی۔ شاکر کی شادی طلاق پر ختم ہوئی اور اس دردناک دور کی عکاسی ان کے کلام میں واضح ہے۔ شاکر نے نجی رنج سے ایک آفاقی نسوانی درد کی طرف سفر طے کیا۔ ان کی شاعری نے عورتوں کی زندگی اور جذبات کی نمائیندگی اس وقت کی جب اردو ادب میں مرد شعراء کا راج تھا۔

اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں

وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا

اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں

اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

دھیمے سروں میں کوئی مدھر گیت چھیڑئیے
ٹھہری ہوئی ہواؤں میں جادو بکھیریے

غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح

میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *