گئے وقتوں کی بات ہے جب زمین کے قبضے کے لیئے افواج صف آرا ہوتی تھیں ، ملک انتقام کی آگ میں دوسرے ملک کے لوگوں کے خون سے ہولی کھیلتے تھے۔ پھر پیسے کی ایجاد ہوئی اور بنی نوع آدم نے سیکھا کہ یہ پیسہ ہے جو “آئرن ایج” میں سب سے طاقتور ستون کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ پیسہ ہی ہے جس سے اپنے ملک میں رہ کر دوسرے ملک کا خون چوسا جا سکتا ہے اور وہ آپ کو کچھ نہیں کہے گا کیونکہ مالیاتی امپیریئل ازم کے اس دلدل میں وہ شوق سے اترا ہے جس سے فرار کا راستہ نہیں۔ اب اس میں دھنستے ہی جانا ہے!
صاحب بہادر امریکہ نے جب دیکھا کہ دنیا پر حکمرانی اگر طاقت کے زور سے ہوتی تو ابا حضور مملکت خداد انگلستان اس میں ان سے کہیں آگے تھی۔ لہازا اب دنیا کو مالیاتی نظام کے شکنجے میں کس لیا جائے تاکہ غاصب ہونے کا الزام بھی نہ لگے اور دنیا بھی صاحب صاحب کا جھاپ کرتی پھرے۔گویا سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے

امریکہ اور چین ایک اقتصادی جنگ میں آمنے سامنے

اسی نظام کو لے کر اب نئے ابھرتے آقائوں نے دنیا پر غائبانہ قبضے کی کوشش شروع کردی ہے جسے دیکھتے ہوئے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے بظاہر بہت اہم مگر ایک بے وقعت مہرے سے زیادہ اہمیت نہ رکھنے والے ملکوں نے بھی اپنا کعبہ واشنگٹن سے بدل کر بیجنگ کر لیا ہے۔ افسوس صد ہا افسوس، اسی فہرست میں “مملکت خداداد پاکستاں” بھی شامل ہے

کہتے ہیں کہ آقائی کی لت بہت بری ہے۔ پھر اپنے پہلے غلاموں کو کسی اور چوکھٹ پہ سجدہ ریز ہوتے دیکھنا گزرے وقت کے آقائوں کے لیئے بہت سوہان روح ہوتا ہے۔ اسی سب کے مد نظر صاحب بہادر امریکہ نے اپنے گھر جمائی اقوام متحدہ کے زریعے ملحدین کے اس ٹولے پر پابندی لگوائی جا رہی ہے اور “با شرم اور با عزت” مسلمان ممالک کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ لا دینوں سے بہتر تو ہم ہیں کے رب پر تو اجماع ہے ہمارا!

ہم نے آقا بدلا ہیں، رویہ نہیں !

شراکت دار: دانش حبیب

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *