ہم سب کی زندگیاں کہانیاں ہیں بس۔ ہر ایک کی زندگی کہانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں کسی کا اختتام خوشی پر ہوتا ہے تو کسی کی زندگی غمی میں گزر جاتی ہے۔جس کو بھی سنو اسکی الگ کہانی۔۔۔
آخر زندگی ہے کیا؟؟ یہ ایسا سوال ہے جو سب کے ذہن میں کبھی نہ کبھی ضرور آتا ہے۔
زندگی کی مثال میرے نزدیک ایک پانی کے قطرے سے مشابہت رکھتی ہے جیسے پانی کا قطرہ اکیلا کوئ وقعت نہیں رکھتا۔۔ سمندر نے قطرے کو ہمکنار کیا اور آغوش رحمت میں لے لیا تو قطرے کو بھی وقعت مل گئ۔۔بلکل اسی طرح انسان کی زندگی بھی اس خدا کی ذات کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی۔
زندگی ایک با رونق بازار سی ہے یہاں لوگ آتے ہیں خریداری کرتے ہیں،اس کا سرمایہ ختم ہو جاتا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ اس کی خریداری دھری رہ جاتی ہے اور وہ خالی ہاتھ واپس لوٹ جاتا ہے۔
زندگی غریبوں کے کچے گھروں میں بھی سرشار رہ سکتی ہے اور امیروں کے پکے گھروں میں بیمار بھی ہو سکتی ہے۔
زندگی کسی فارمولے کا نام نہیں ہے اس میں قہقے بھی ہیں اور ہچکیاں اور سسکیاں بھی! زندگی کو محبت کہہ لیا جائے تو نفرت بھی تو زندگی ہی ہے بلکہ نفرت زیادہ زندہ رہتی ہے۔
زندگی ایک راز ہے ایک بقاء کی جنگ ہے یہ ایسا راز ہے کہ جس نے پا لیا وہ مر گیا اور جو نہ پا سکا وہ اسی غم میں مارا گیا۔
زندگی موت کے تعاقب میں ہے۔ہم زندگی بھر موت سے ڈرتے ہیں جب کہ خدا کہتا ہے کہ زندگی کی محافظ موت ہی تو ہے۔
رندگی “میں” کا نام نہیں ہے دوسروں کی زندگیاں بھی اتنی ہی معتبر ہیں جتنی کہ ہماری زندگی اپنے قریب ہونے کا مام ہے لیکن اس شرط پر کہ”تو” بھی زندگی ہے اور “وہ بھی۔ سب کا احترام ہی اپنا احترام ہے۔
شراکت دار: صائمہ نعیم