درج ذیل آرٹیکل میں پیش کردہ آراء مصنف کی ذات سے منسلک ہیں
تعلیمی اداروں میں اخلاقیات پر پہرا داری کی جا رہی ہے۔ جس کو لے کر کچھ طلبات میں غصہ پایا جاتا ہے اور کچھ خوش دکھائی دیتے ہیں۔ کیا یہ سہی ہے؟ یہ فیصلہ ہر کسی کی سوچ پر منحصر ہے۔کچھ تعلیمی اداروں کی پہرا داری درج ذیل ہیں۔
بحریہ یونیورسٹی نے اپنے تینوں کیمپس میں یہ پابندی عائد کی ہے کہ لڑکا اور لڑکی سب ایک دوسرے سے چھ انچ کا فاصلہ رکھیں گے۔ ان کا کہنہ ہے کہ یہ ہر بندے کا زاتی حق ہے کہ اس کو اتنی جگہ دی جائے۔
اسلام آباد نسٹ نے اپنے طلبات پر یہ پابندی لگائ ہے کہ لڑکیاں تمباکو نوشی نہیں کریں گی اور اگر وہ اس مخصوص حصے میں جاتی ہیں تو ہزار روپے جرمانہ عائد ہو گا اور ان کے والدین کو بلایا جائے گا۔

ہر بندے کا سوچنے کا زاویہ الگ ہوتا ہے۔ میرے نزدیک یہ ادارے جو پہرا داری کر رہے یہ کافی حد تک درست ہے۔ یہ تعلیمی اداروے ہمیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ اخلاقیات بھی سکھانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ہم صرف تعلیم کا بوجھ لے کر ان اداروں میں نہیں جاتے بلکہ سب سے بڑا بوجھ ہم پر ہمارے ماں باپ کے اندھے یقین کا ہوتا ہے جو کچھ بچے اپنے پیروں تلے روندھ دیتے ہیں اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا یا جب ہوتا ہے تب کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے اور انہی وجوہات کی بناء پر اداروں کو ایسے قدم اٹھانے پڑتے ہیں.
ہاں میں اس بات کی بھرپور مذمت کروں گی کہ جب شروع سے ہمیں یہ سکہھایا جاتا ہے کہ لڑکا لڑکی برابر ہیں تو ان پر پابندی میں بھی برابری ہونی چاہیے۔ اگر تمباکو نوشی لڑکی کے لیے جائز نہیں تو کہیں یہ بھی نہیں لکھا کہ لڑکوں کے لیے یہ ثواب ہے۔ لڑکوں پر بھی اخلاقیات اتنی ہی عائد ہوتی ہیں جتنی کہ لڑکیوں پر۔
یہ عمر ہماری لا ابالی پن کی ہوتی ہے بہت سے سہی کام ہمیں غلط لگتے ہیں کیونکہ جوانی کا خون جوش مارتا ہے اور صرف “میں” پر یقین رکھتا ہے۔ زندگی میں کہیں نہ کہیں ہمیں یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ ان سب میں ہماری اپنی اصلاح اور بھلائی ہی تو تھی۔
طلباء یقین رکھیں کہ ہمارے اساتذہ جو پابندی لگاتے ہیں اس میں بھلائی ہے آخر کو وہ بھی ہماری عمر سے گزرے ہوتے ہیں اور ہم سے کئی زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔
طلباء اپنی زندگی کے یہ چار پانچ سال اپنی اصلاح کے لیے وقف کر دیں تو ساری عمر کی عزت ہے۔۔۔۔آخر کو یہ ادارے ہماری اصلاح کے لیے ہی بنائے گئے ہیں ان کا وجود کا مقصد ہی یہ ہے!
شراکت دار: صائمہ نعیم