منگل کے روز سندھ اسمبلی کے اراکین نے قرارداد پیش کی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ 2013 میں متعارف کردہ تعلیمی قانون پر عمل درآمد کیا جائے۔ یہ قرارداد پی ٹی آئی کی ارکان سیما ضیا نے ایوان کے سامنے پیش کی۔
ء2013 میں منظور کردہ قانون سندھ کے تمام صوبے میں دس سالہ تعلیم کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرتا ہے اور اس اصول کو نجی مکاتب میں رائج کرنے کی یقین دہانی دلاتا ہے۔ اس قانون کے مطابق نجی مکاتب کے دس فیصد طلباء پسماندہ طبقے سے ہوں گے، جنہیں مفت تعلیم دیا ان مکاتب کی قانونی ذمہ داری ہو گی۔

ایوان میں حزب اختلاف کی رہنما فردوس شمیم نقوی کا کہنا تھا کہ اس قانون کے اصل نفاذ کے لیے ایک نئے محکمے کی ضرورت ہوگی جو نجی مکاتب کی نگرانی کر سکے۔
اس قانون کے نفاذ سے درحقیقت ایک فلاحی نظام قائم ہو گا جو غیر مستقیض خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کو بہتر تعلیم اور زندگی میں ترقی کا موقع دے گا۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت ایک نجی ادارے کو فلاحی امور کرنے پر مجبور کر سکتی ہے؟ میرے نزدیک نجی ادارے ریاست کے ما تہت ہوتے ہیں کیونکہ ریاست ان کے وجود کو یقینی بناتی ہے اور ان کے حقوق کی محافظ ہوتی ہے۔ جس طرح ریاست افراد کے حقوق میں کمی بیشی کر کے معاشرتی فلاح کو فروغ دیتی ہے، اسی طرح نجی اداروں کے حقوق کو محدود کر کے معاشرے کے لیے بہتر فیصلے لے سکتی ہے۔