بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے

جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں

ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں

فیض احمد فیض کی یادگار میں منعقد کردہ تین روزہ میلا اتوار کے روز اختتام کو پہنچا۔ فیض نے تمام زندگی ایک سوچ اور نظریئے کی نذر کردی، مگر کیا آج بھی کچھ بدلا ہے؟ فیض کے اسی میلے پر ایک سماجی کارکن عمار علی جان کو بولنے سے منع کر دیا گیا۔ عمار علی جان کو اس میلے میں گفتگو کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا مگر بیرونی دباو کی وجہ سے انتظامیہ نے ان سے معذرت کر لی۔

عمار علی جان

افسوس کی بات ہے کہ آج بھی وہی طبقہ برسر اقتدار ہے جس کے خلاف فیض نے آواز اٹھائی۔ دہائیاں گزرنے کے باوجود کچھ نہیں بدلہ۔

آج بھی معلومات اور آزادی اظہار پر وہی پابندیاں ہیں جو فیض کے دور میں رائج تھیں۔ ایسے معاشرے میں علم اور روشنی کا کوئی امکان نہیں جو سوچ اور تجسس پر زنجیریں ڈالتا ہو۔ مگر فیض کی شاعری اس دور میں اور بھی اہم اور متعلقہ ہے۔ فیض کی شاعری میں ظلمت کے خلاف ایک امید کا پہلو ہے۔

ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم

اور کچھ دیر ستم سہہ لیں تڑپ لیں رو لیں

اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *